جی رہے ہیں عافیت میں تو ہنر خوابوں کا ہے
اب بھی لگتا ہے کہ یہ سارا سفر خوابوں کا ہے
جی لگا رکھا ہے یوں تعبیر کے اوہام سے
زندگی کیا ہے میاں بس ایک گھر خوابوں کا ہے
رات چلتی رہتی ہے اور جلتا رہتا ہے چراغ
ایک بجھتا ہے تو پھر نقش دگر خوابوں کا ہے
رنگ بازار خرد کا اور یہ میرا جنوں
اک ستارہ گنبد افلاک پر خوابوں کا ہے
رات کا دریا اور اس میں ایک طوفان مہیب
جاگنا ہے دیر تک یہ بھی اثر خوابوں کا ہے
ورنہ کٹ جاتے ہیں روز و شب زمانے کی طرح
جو بھی تھوڑا یا بہت سمجھو تو ڈر خوابوں کا ہے
غزل
جی رہے ہیں عافیت میں تو ہنر خوابوں کا ہے
عین تابش