EN हिंदी
وہ بھی کیا دن تھے کیا زمانے تھے | شیح شیری
wo bhi kya din the kya zamane the

غزل

وہ بھی کیا دن تھے کیا زمانے تھے

اختر رضا سلیمی

;

وہ بھی کیا دن تھے کیا زمانے تھے
روز اک خواب دیکھ لیتے تھے

اب زمیں بھی جگہ نہیں دیتی
ہم کبھی آسماں پہ رہتے تھے

آخرش خود تک آن پہنچے ہیں
جو تری جستجو میں نکلے تھے

خواب گلیوں میں پھر رہے تھے اور
لوگ اپنے گھروں میں سوئے تھے

ہم کہیں دور تھے بہت ہی دور
اور ترے آس پاس بیٹھے تھے