غم مجھے ناتوان رکھتا ہے
عشق بھی اک نشان رکھتا ہے
جرأت قلندر بخش
سر دیجے راہ عشق میں پر منہ نہ موڑیے
پتھر کی سی لکیر ہے یہ کوہکن کی بات
جرأت قلندر بخش
ادھر آ رقیب میرے میں تجھے گلے لگا لوں
مرا عشق بے مزا تھا تری دشمنی سے پہلے
کیف بھوپالی
تم سے مل کر املی میٹھی لگتی ہے
تم سے بچھڑ کر شہد بھی کھارا لگتا ہے
کیف بھوپالی
جھکی جھکی سی نظر بے قرار ہے کہ نہیں
دبا دبا سا سہی دل میں پیار ہے کہ نہیں
کیفی اعظمی
بھلا آدمی تھا پہ نادان نکلا
سنا ہے کسی سے محبت کرے ہے
کلیم عاجز
دل تھام کے کروٹ پہ لئے جاؤں ہوں کروٹ
وہ آگ لگی ہے کہ بجھائے نہ بنے ہے
کلیم عاجز