EN हिंदी
اشق شیاری | شیح شیری

اشق

422 شیر

محبت کی تو کوئی حد، کوئی سرحد نہیں ہوتی
ہمارے درمیاں یہ فاصلے، کیسے نکل آئے

خالد معین




ہوتی نہیں ہے یوں ہی ادا یہ نماز عشق
یاں شرط ہے کہ اپنے لہو سے وضو کرو

خلیلؔ الرحمن اعظمی




سنا رہا ہوں انہیں جھوٹ موٹ اک قصہ
کہ ایک شخص محبت میں کامیاب رہا

خلیلؔ الرحمن اعظمی




محبت زلف کا آسیب جادو ہے نگاہوں کا
محبت فتنۂ محشر بلائے ناگہانی ہے

خار دہلوی




بھولے ہیں رفتہ رفتہ انہیں مدتوں میں ہم
قسطوں میں خودکشی کا مزا ہم سے پوچھئے

خمارؔ بارہ بنکوی




یہ کہنا تھا ان سے محبت ہے مجھ کو
یہ کہنے میں مجھ کو زمانے لگے ہیں

خمارؔ بارہ بنکوی




یہ وفا کی سخت راہیں یہ تمہارے پاؤں نازک
نہ لو انتقام مجھ سے مرے ساتھ ساتھ چل کے

your feet are tender, delicate, harsh are the paths of constancy
on me your vengeance do not wreak, by thus giving me company

خمارؔ بارہ بنکوی