عشق کو ایک عمر چاہئے اور
عمر کا کوئی اعتبار نہیں
جگر بریلوی
عشق میں قدر خستگی کی امید
اے جگرؔ ہوش کی دوا کیجئے
جگر بریلوی
سانس لینے میں درد ہوتا ہے
اب ہوا زندگی کی راس نہیں
جگر بریلوی
تم نہیں پاس کوئی پاس نہیں
اب مجھے زندگی کی آس نہیں
جگر بریلوی
آتش عشق وہ جہنم ہے
جس میں فردوس کے نظارے ہیں
جگر مراد آبادی
دل میں کسی کے راہ کئے جا رہا ہوں میں
کتنا حسیں گناہ کئے جا رہا ہوں میں
جگر مراد آبادی
ہائے رے مجبوریاں محرومیاں ناکامیاں
عشق آخر عشق ہے تم کیا کرو ہم کیا کریں
جگر مراد آبادی