EN हिंदी
اشق شیاری | شیح شیری

اشق

422 شیر

اک لفظ محبت کا ادنیٰ یہ فسانا ہے
سمٹے تو دل عاشق پھیلے تو زمانہ ہے

جگر مراد آبادی




عشق جب تک نہ کر چکے رسوا
آدمی کام کا نہیں ہوتا

till love does not cause him disgrace
in this world man has no place

جگر مراد آبادی




عشق پر کچھ نہ چلا دیدۂ تر کا قابو
اس نے جو آگ لگا دی وہ بجھائی نہ گئی

جگر مراد آبادی




کوچۂ عشق میں نکل آیا
جس کو خانہ خراب ہونا تھا

جگر مراد آبادی




کیا حسن نے سمجھا ہے کیا عشق نے جانا ہے
ہم خاک نشینوں کی ٹھوکر میں زمانا ہے

جگر مراد آبادی




محبت میں یہ کیا مقام آ رہے ہیں
کہ منزل پہ ہیں اور چلے جا رہے ہیں

جگر مراد آبادی




محبت، صلح بھی پیکار بھی ہے
یہ شاخ گل بھی ہے تلوار بھی ہے

جگر مراد آبادی