اک لفظ محبت کا ادنیٰ یہ فسانا ہے
سمٹے تو دل عاشق پھیلے تو زمانہ ہے
جگر مراد آبادی
عشق جب تک نہ کر چکے رسوا
آدمی کام کا نہیں ہوتا
till love does not cause him disgrace
in this world man has no place
جگر مراد آبادی
عشق پر کچھ نہ چلا دیدۂ تر کا قابو
اس نے جو آگ لگا دی وہ بجھائی نہ گئی
جگر مراد آبادی
کوچۂ عشق میں نکل آیا
جس کو خانہ خراب ہونا تھا
جگر مراد آبادی
کیا حسن نے سمجھا ہے کیا عشق نے جانا ہے
ہم خاک نشینوں کی ٹھوکر میں زمانا ہے
جگر مراد آبادی
محبت میں یہ کیا مقام آ رہے ہیں
کہ منزل پہ ہیں اور چلے جا رہے ہیں
جگر مراد آبادی
محبت، صلح بھی پیکار بھی ہے
یہ شاخ گل بھی ہے تلوار بھی ہے
جگر مراد آبادی