EN हिंदी
اشق شیاری | شیح شیری

اشق

422 شیر

ہاں کچھ بھی تو دیرینہ محبت کا بھرم رکھ
دل سے نہ آ دنیا کو دکھانے کے لئے آ

کلیم عاجز




عشق میں موت کا نام ہے زندگی
جس کو جینا ہو مرنا گوارا کرے

کلیم عاجز




مرنا تو بہت سہل سی اک بات لگے ہے
جینا ہی محبت میں کرامات لگے ہے

کلیم عاجز




وہ ستم نہ ڈھائے تو کیا کرے اسے کیا خبر کہ وفا ہے کیا؟
تو اسی کو پیار کرے ہے کیوں یہ کلیمؔ تجھ کو ہوا ہے کیا؟

کلیم عاجز




ظالم تھا وہ اور ظلم کی عادت بھی بہت تھی
مجبور تھے ہم اس سے محبت بھی بہت تھی

کلیم عاجز




ہمیشہ آگ کے دریا میں عشق کیوں اترے
کبھی تو حسن کو غرق عذاب ہونا تھا

کرامت علی کرامت




جی چاہے گا جس کو اسے چاہا نہ کریں گے
ہم عشق و ہوس کو کبھی یکجا نہ کریں گے

کرامت علی شہیدی