عشق کو بے نقاب ہونا تھا
آپ اپنا جواب ہونا تھا
مست جام شراب ہونا تھا
بے خود اضطراب ہونا تھا
تیری آنکھوں کا کچھ قصور نہیں
ہاں مجھی کو خراب ہونا تھا
آؤ مل جاؤ مسکرا کے گلے
ہو چکا جو عتاب ہونا تھا
کوچۂ عشق میں نکل آیا
جس کو خانہ خراب ہونا تھا
مست جام شراب خاک ہوتے
غرق جام شراب ہونا تھا
دل کہ جس پر ہیں نقش رنگارنگ
اس کو سادہ کتاب ہونا تھا
ہم نے ناکامیوں کو ڈھونڈ لیا
آخرش کامیاب ہونا تھا
ہائے وہ لمحہ سکوں کہ جسے
محشر اضطراب ہونا تھا
نگہ یار خود تڑپ اٹھتی
شرط اول خراب ہونا تھا
کیوں نہ ہوتا ستم بھی بے پایاں
کرم بے حساب ہونا تھا
کیوں نظر حیرتوں میں ڈوب گئی
موج صد اضطراب ہونا تھا
ہو چکا روز اولیں ہی جگرؔ
جس کو جتنا خراب ہونا تھا
غزل
عشق کو بے نقاب ہونا تھا
جگر مراد آبادی