EN हिंदी
اشق شیاری | شیح شیری

اشق

422 شیر

عشق کی چوٹ کا کچھ دل پہ اثر ہو تو سہی
درد کم ہو یا زیادہ ہو مگر ہو تو سہی

جلالؔ لکھنوی




ہر آن ایک تازہ شکایت ہے آپ سے
اللہ مجھ کو کتنی محبت ہے آپ سے

جلال الدین اکبر




عشق سے ہے فروغ رنگ جہاں
ابتدا ہم ہیں انتہا ہیں ہم

جلال الدین اکبر




عشق خود سکھاتا ہے ساری حکمتیں عالؔی
نقد دل کسے دینا بار سر کہاں رکھنا

جلیل عالیؔ




اک سفر میں کوئی دو بار نہیں لٹ سکتا
اب دوبارہ تری چاہت نہیں کی جا سکتی

جمال احسانی




یاد رکھنا ہی محبت میں نہیں ہے سب کچھ
بھول جانا بھی بڑی بات ہوا کرتی ہے

جمال احسانی




ہر اک بات میں ڈالے ہے ہندو مسلم کی بات
یہ نا جانے الھڑ گوری پریم ہے خود اک ذات

جمیل الدین عالی