EN हिंदी
محبت میں یہ کیا مقام آ رہے ہیں | شیح شیری
mohabbat mein ye kya maqam aa rahe hain

غزل

محبت میں یہ کیا مقام آ رہے ہیں

جگر مراد آبادی

;

محبت میں یہ کیا مقام آ رہے ہیں
کہ منزل پہ ہیں اور چلے جا رہے ہیں

یہ کہہ کہہ کے ہم دل کو بہلا رہے ہیں
وہ اب چل چکے ہیں وہ اب آ رہے ہیں

وہ از خود ہی نادم ہوئے جا رہے ہیں
خدا جانے کیا کیا خیال آ رہے ہیں

ہمارے ہی دل سے مزے ان کے پوچھو
وہ دھوکے جو دانستہ ہم کھا رہے ہیں

جفا کرنے والوں کو کیا ہو گیا ہے
وفا کر کے بھی ہم تو شرما رہے ہیں

وہ عالم ہے اب یارو اغیار کیسے
ہمیں اپنے دشمن ہوئے جا رہے ہیں

مزاج گرامی کی ہو خیر یارب
کئی دن سے اکثر وہ یاد آ رہے ہیں