داستان غم دل ان کو سنائی نہ گئی
بات بگڑی تھی کچھ ایسی کہ بنائی نہ گئی
سب کو ہم بھول گئے جوش جنوں میں لیکن
اک تری یاد تھی ایسی جو بھلائی نہ گئی
عشق پر کچھ نہ چلا دیدۂ تر کا قابو
اس نے جو آگ لگا دی وہ بجھائی نہ گئی
پڑ گیا حسن رخ یار کا پرتو جس پر
خاک میں مل کے بھی اس دل کی صفائی نہ گئی
کیا اٹھائے گی صبا خاک مری اس در سے
یہ قیامت تو خود ان سے بھی اٹھائی نہ گئی
غزل
داستان غم دل ان کو سنائی نہ گئی
جگر مراد آبادی