سبھی انداز حسن پیارے ہیں
ہم مگر سادگی کے مارے ہیں
اس کی راتوں کا انتقام نہ پوچھ
جس نے ہنس ہنس کے دن گزارے ہیں
اے سہاروں کی زندگی والو
کتنے انسان بے سہارے ہیں
لالہ و گل سے تجھ کو کیا نسبت
نا مکمل سے استعارے ہیں
ہم تو اب ڈوب کر ہی ابھریں گے
وہ رہیں شاد جو کنارے ہیں
شب فرقت بھی جگمگا اٹھی
اشک غم ہیں کہ ماہ پارے ہیں
آتش عشق وہ جہنم ہے
جس میں فردوس کے نظارے ہیں
وہ ہمیں ہیں کہ جن کے ہاتھوں نے
گیسوئے زندگی سنوارے ہیں
حسن کی بے نیازیوں پہ نہ جا
بے اشارے بھی کچھ اشارے ہیں
غزل
سبھی انداز حسن پیارے ہیں
جگر مراد آبادی