دل میں کسی کے راہ کئے جا رہا ہوں میں
کتنا حسیں گناہ کئے جا رہا ہوں میں
دنیائے دل تباہ کئے جا رہا ہوں میں
صرف نگاہ و آہ کئے جا رہا ہوں میں
فرد عمل سیاہ کئے جا رہا ہوں میں
رحمت کو بے پناہ کئے جا رہا ہوں میں
ایسی بھی اک نگاہ کئے جا رہا ہوں میں
ذروں کو مہر و ماہ کئے جا رہا ہوں میں
مجھ سے لگے ہیں عشق کی عظمت کو چار چاند
خود حسن کو گواہ کئے جا رہا ہوں میں
دفتر ہے ایک معنئ بے لفظ و صوت کا
سادہ سی جو نگاہ کئے جا رہا ہوں میں
آگے قدم بڑھائیں جنہیں سوجھتا نہیں
روشن چراغ راہ کئے جا رہا ہوں میں
معصومئ جمال کو بھی جن پہ رشک ہے
ایسے بھی کچھ گناہ کئے جا رہا ہوں میں
تنقید حسن مصلحت خاص عشق ہے
یہ جرم گاہ گاہ کئے جا رہا ہوں میں
اٹھتی نہیں ہے آنکھ مگر اس کے روبرو
نادیدہ اک نگاہ کئے جا رہا ہوں میں
گلشن پرست ہوں مجھے گل ہی نہیں عزیز
کانٹوں سے بھی نباہ کئے جا رہا ہوں میں
یوں زندگی گزار رہا ہوں ترے بغیر
جیسے کوئی گناہ کئے جا رہا ہوں میں
مجھ سے ادا ہوا ہے جگرؔ جستجو کا حق
ہر ذرے کو گواہ کئے جا رہا ہوں میں
غزل
دل میں کسی کے راہ کئے جا رہا ہوں میں
جگر مراد آبادی