EN हिंदी
اشق شیاری | شیح شیری

اشق

422 شیر

نہیں ہوتی ہے راہ عشق میں آسان منزل
سفر میں بھی تو صدیوں کی مسافت چاہئے ہے

فرحت ندیم ہمایوں




غم عشق ہی نے کاٹی غم عشق کی مصیبت
اسی موج نے ڈبویا اسی موج نے ابھارا

فاروق بانسپاری




سکون دل کے لیے عشق تو بہانہ تھا
وگرنہ تھک کے کہیں تو ٹھہر ہی جانا تھا

فاطمہ حسن




بہت دنوں میں محبت کو یہ ہوا معلوم
جو تیرے ہجر میں گزری وہ رات رات ہوئی

فراق گورکھپوری




عشق اب بھی ہے وہ محرم بیگانہ نما
حسن یوں لاکھ چھپے لاکھ نمایاں ہو جائے

فراق گورکھپوری




عشق پھر عشق ہے جس روپ میں جس بھیس میں ہو
عشرت وصل بنے یا غم ہجراں ہو جائے

فراق گورکھپوری




کسی کا یوں تو ہوا کون عمر بھر پھر بھی
یہ حسن و عشق تو دھوکا ہے سب مگر پھر بھی

فراق گورکھپوری