سکون دل کے لیے عشق تو بہانہ تھا
وگرنہ تھک کے کہیں تو ٹھہر ہی جانا تھا
جو اضطراب کا موسم گزار آئیں ہیں
وہ جانتے ہیں کہ وحشت کا کیا زمانہ تھا
وہ جن کو شکوہ تھا اوروں سے ظلم سہنے کا
خود ان کا اپنا بھی انداز جارحانہ تھا
بہت دنوں سے مجھے انتظار شب بھی نہیں
وہ رت گزر گئی ہر خواب جب سہانا تھا
کب اس کی فتح کی خواہش کو جیت سکتی تھی
میں وہ فریق ہوں جس کو کہ ہار جانا تھا
غزل
سکون دل کے لیے عشق تو بہانہ تھا
فاطمہ حسن