نہ دولت کی طلب تھی اور نہ دولت چاہئے ہے
محبت چاہئے تھی بس محبت چاہئے ہے
سہا جاتا نہیں ہم سے غم ہجر مسلسل
ذرا سی دیر کو تیری رفاقت چاہئے ہے
ترا دیدار ہو آنکھیں کسی بھی سمت دیکھیں
سو ہر چہرے میں اب تیری شباہت چاہئے ہے
کیا ہے تو نے جب ترک تعلق کا ارادہ
ہمیں بھی فیصلہ کرنے کی مہلت چاہئے ہے
یہ کیوں کہتے ہو راہ عشق پر چلنا ہے ہم کو
کہو کہ زندگی سے اب فراغت چاہئے ہے
نہیں ہوتی ہے راہ عشق میں آسان منزل
سفر میں بھی تو صدیوں کی مسافت چاہئے ہے
غم جاناں کے بھی کچھ دیر تو ہم ناز اٹھا لیں
غم دوراں سے تھوڑے دن کی رخصت چاہئے ہے
ہر اک اپنی ضرورت کے تحت ہم سے ہے ملتا
ہمیں بھی اب کوئی حسب ضرورت چاہئے ہے
ہے جب سے منعکس چہرہ بدلنے کا وہ منظر
ہماری آئنہ آنکھوں کو حیرت چاہئے ہے
جو نکلیں عالم وحشت سے پھر کچھ اور سوچیں
خرد سے رابطے رکھنے کو فرصت چاہئے ہے
غزل
نہ دولت کی طلب تھی اور نہ دولت چاہئے ہے
فرحت ندیم ہمایوں