EN हिंदी
نہ دولت کی طلب تھی اور نہ دولت چاہئے ہے | شیح شیری
na daulat ki talab thi aur na daulat chahiye hai

غزل

نہ دولت کی طلب تھی اور نہ دولت چاہئے ہے

فرحت ندیم ہمایوں

;

نہ دولت کی طلب تھی اور نہ دولت چاہئے ہے
محبت چاہئے تھی بس محبت چاہئے ہے

سہا جاتا نہیں ہم سے غم ہجر مسلسل
ذرا سی دیر کو تیری رفاقت چاہئے ہے

ترا دیدار ہو آنکھیں کسی بھی سمت دیکھیں
سو ہر چہرے میں اب تیری شباہت چاہئے ہے

کیا ہے تو نے جب ترک تعلق کا ارادہ
ہمیں بھی فیصلہ کرنے کی مہلت چاہئے ہے

یہ کیوں کہتے ہو راہ عشق پر چلنا ہے ہم کو
کہو کہ زندگی سے اب فراغت چاہئے ہے

نہیں ہوتی ہے راہ عشق میں آسان منزل
سفر میں بھی تو صدیوں کی مسافت چاہئے ہے

غم جاناں کے بھی کچھ دیر تو ہم ناز اٹھا لیں
غم دوراں سے تھوڑے دن کی رخصت چاہئے ہے

ہر اک اپنی ضرورت کے تحت ہم سے ہے ملتا
ہمیں بھی اب کوئی حسب ضرورت چاہئے ہے

ہے جب سے منعکس چہرہ بدلنے کا وہ منظر
ہماری آئنہ آنکھوں کو حیرت چاہئے ہے

جو نکلیں عالم وحشت سے پھر کچھ اور سوچیں
خرد سے رابطے رکھنے کو فرصت چاہئے ہے