EN हिंदी
کبھی بے نیاز مخزن کبھی دشمن کنارا | شیح شیری
kabhi be-niyaz-e-maKHzan kabhi dushman-e-kinara

غزل

کبھی بے نیاز مخزن کبھی دشمن کنارا

فاروق بانسپاری

;

کبھی بے نیاز مخزن کبھی دشمن کنارا
کہیں تجھ کو لے نہ ڈوبے تری زندگی کا دھارا

مری قوت نظر کا کئی رخ سے امتحاں ہے
کبھی عذر لن ترانی کبھی دعوت نظارا

غم عشق ہی نے کاٹی غم عشق کی مصیبت
اسی موج نے ڈبویا اسی موج نے ابھارا

ترے غم کی پردہ پوشی جو اسی کی مقتضی ہے
تو قسم ہے تیرے غم کی مجھے ہر خوشی گوارا

دم صبح نو بہاراں جو کلی چمن میں چٹکی
تو گماں ہوا کہ جیسے مجھے آپ نے پکارا

مرے ناخدا نہ گھبرا یہ نظر ہے اپنی اپنی
ترے سامنے ہے طوفاں مرے سامنے کنارا

مری کشتی تمنا کبھی خشکیوں میں ڈوبی
کبھی بحر غم کا تنکا مجھے دے گیا سہارا

ترا حق بھی سر بہ زانو مرا کفر بھی پشیماں
مجھے آگہی نے لوٹا تجھے غفلتوں نے مارا

یہ کرم یہ مہربانی تری فاروقؔ حزیں پر
یہ گلہ ہے کیوں نہ بخشا مجھے شکریے کا یارا