EN हिंदी
اشق شیاری | شیح شیری

اشق

422 شیر

یہ مزہ تھا دل لگی کا کہ برابر آگ لگتی
نہ تجھے قرار ہوتا نہ مجھے قرار ہوتا

داغؔ دہلوی




عشق نے جس دل پہ قبضہ کر لیا
پھر کہاں اس میں نشاط و غم رہے

دتا تریہ کیفی




اس شہر میں تو کچھ نہیں رسوائی کے سوا
اے دلؔ یہ عشق لے کے کدھر آ گیا تجھے

دل ایوبی




یہ راہ عشق ہے آخر کوئی مذاق نہیں
صعوبتوں سے جو گھبرا گئے ہوں گھر جائیں

دل ایوبی




زندگی جب عذاب ہوتی ہے
عاشقی کامیاب ہوتی ہے

دشینتؔ کمار




شورش عشق میں ہے حسن برابر کا شریک
سوچ کر جرم تمنا کی سزا دو ہم کو

احسان دانش




قبروں میں نہیں ہم کو کتابوں میں اتارو
ہم لوگ محبت کی کہانی میں مریں ہیں

اعجاز توکل