EN हिंदी
ہاتھ آئے تو وہی دامن جاناں ہو جائے | شیح شیری
hath aae to wahi daman-e-jaanan ho jae

غزل

ہاتھ آئے تو وہی دامن جاناں ہو جائے

فراق گورکھپوری

;

ہاتھ آئے تو وہی دامن جاناں ہو جائے
چھوٹ جائے تو وہی اپنا گریباں ہو جائے

عشق اب بھی ہے وہ محرم بیگانہ نما
حسن یوں لاکھ چھپے لاکھ نمایاں ہو جائے

ہوش و غفلت سے بہت دور ہے کیفیت عشق
اس کی ہر بے خبری منزل عرفاں ہو جائے

یاد آتی ہے جب اپنی تو تڑپ جاتا ہوں
میری ہستی ترا بھولا ہوا پیماں ہو جائے

آنکھ وہ ہے جو تری جلوہ گہہ ناز بنے
دل وہی ہے جو سراپا ترا ارماں ہو جائے

پاک بازان محبت میں جو بے باکی ہے
حسن گر اس کو سمجھ لے تو پشیماں ہو جائے

سہل ہو کر ہوئی دشوار محبت تیری
اسے مشکل جو بنا لیں تو کچھ آساں ہو جائے

عشق پھر عشق ہے جس روپ میں جس بھیس میں ہو
عشرت وصل بنے یا غم ہجراں ہو جائے

کچھ مداوا بھی ہو مجروح دلوں کا اے دوست
مرہم زخم ترا جور‌ پشیماں ہو جائے

یہ بھی سچ ہے کوئی الفت میں پریشاں کیوں ہو
یہ بھی سچ ہے کوئی کیوں کر نہ پریشاں ہو جائے

عشق کو عرض تمنا میں بھی لاکھوں پس و پیش
حسن کے واسطے انکار بھی آساں ہو جائے

جھلملاتی ہے سر بزم جہاں شمع خودی
جو یہ بجھ جائے چراغ رہ عرفاں ہو جائے

سر شوریدہ دیا دشت و بیاباں بھی دیے
یہ مری خوبیٔ قسمت کہ وہ زنداں ہو جائے

عقدۂ عشق عجب عقدۂ مہمل ہے فراقؔ
کبھی لاحل کبھی مشکل کبھی آساں ہو جائے