کسی کا یوں تو ہوا کون عمر بھر پھر بھی
یہ حسن و عشق تو دھوکا ہے سب مگر پھر بھی
ہزار بار زمانہ ادھر سے گزرا ہے
نئی نئی سی ہے کچھ تیری رہ گزر پھر بھی
کہوں یہ کیسے ادھر دیکھ یا نہ دیکھ ادھر
کہ درد درد ہے پھر بھی نظر نظر پھر بھی
خوشا اشارۂ پیہم زہے سکوت نظر
دراز ہو کے فسانہ ہے مختصر پھر بھی
جھپک رہی ہیں زمان و مکاں کی بھی آنکھیں
مگر ہے قافلہ آمادۂ سفر پھر بھی
شب فراق سے آگے ہے آج میری نظر
کہ کٹ ہی جائے گی یہ شام بے سحر پھر بھی
کہیں یہی تو نہیں کاشف حیات و ممات
یہ حسن و عشق بظاہر ہیں بے خبر پھر بھی
پلٹ رہے ہیں غریب الوطن پلٹنا تھا
وہ کوچہ روکش جنت ہو گھر ہے گھر پھر بھی
لٹا ہوا چمن عشق ہے نگاہوں کو
دکھا گیا وہی کیا کیا گل و ثمر پھر بھی
خراب ہو کے بھی سوچا کیے ترے مہجور
یہی کہ تیری نظر ہے تری نظر پھر بھی
ہو بے نیاز اثر بھی کبھی تری مٹی
وہ کیمیا ہی سہی رہ گئی کسر پھر بھی
لپٹ گیا ترا دیوانہ گرچہ منزل سے
اڑی اڑی سی ہے یہ خاک رہ گزر پھر بھی
تری نگاہ سے بچنے میں عمر گزری ہے
اتر گیا رگ جاں میں یہ نیشتر پھر بھی
غم فراق کے کشتوں کا حشر کیا ہوگا
یہ شام ہجر تو ہو جائے گی سحر پھر بھی
فنا بھی ہو کے گراں باریٔ حیات نہ پوچھ
اٹھائے اٹھ نہیں سکتا یہ درد سر پھر بھی
ستم کے رنگ ہیں ہر التفات پنہاں میں
کرم نما ہیں ترے جور سر بسر پھر بھی
خطا معاف ترا عفو بھی ہے مثل سزا
تری سزا میں ہے اک شان در گزر پھر بھی
اگرچہ بے خودیٔ عشق کو زمانہ ہوا
فراقؔ کرتی رہی کام وہ نظر پھر بھی
غزل
کسی کا یوں تو ہوا کون عمر بھر پھر بھی
فراق گورکھپوری