EN हिंदी
اشق شیاری | شیح شیری

اشق

422 شیر

محبت کرو اور نباہو تو پوچھوں
یہ دشواریاں ہیں کہ آسانیاں ہیں

حفیظ جالندھری




نہ پاک ہوگا کبھی حسن و عشق کا جھگڑا
وہ قصہ ہے یہ کہ جس کا کوئی گواہ نہیں

حیدر علی آتش




حسن ہے کافر بنانے کے لیے
عشق ہے ایمان لانے کے لیے

حیرت گونڈوی




چرچا ہمارا عشق نے کیوں جا بہ جا کیا
دل اس کو دے دیا تو بھلا کیا برا کیا

حکیم محمد اجمل خاں شیدا




سینے میں راز عشق چھپایا نہ جائے گا
یہ آگ وہ ہے جس کو دبایا نہ جائے گا

حمید جالندھری




عشق کے پھندے سے بچئے اے حقیرؔ خستہ دل
اس کا ہے آغاز شیریں اور ہے انجام تلخ

حقیر




محبتیں تو فقط انتہائیں مانگتی ہیں
محبتوں میں بھلا اعتدال کیا کرنا

حسن عباس رضا