EN हिंदी
انتر شیاری | شیح شیری

انتر

93 شیر

نینوں میں تھا راستہ ہردے میں تھا گاؤں
ہوئی نہ پوری یاترا چھلنی ہو گئے پاؤں

ندا فاضلی




ہے خوشی انتظار کی ہر دم
میں یہ کیوں پوچھوں کب ملیں گے آپ

نظام رامپوری




بارہا تیرا انتظار کیا
اپنے خوابوں میں اک دلہن کی طرح

پروین شاکر




وہ نہ آئے گا ہمیں معلوم تھا اس شام بھی
انتظار اس کا مگر کچھ سوچ کر کرتے رہے

پروین شاکر




یہ وقت بند دریچوں پہ لکھ گیا قیصرؔ
میں جا رہا ہوں مرا انتظار مت کرنا

قیصر الجعفری




یہ انتظار کی گھڑیاں یہ شب کا سناٹا
اس ایک شب میں بھرے ہیں ہزار سال کے دن

قمر صدیقی




صدیوں تک اہتمام شب ہجر میں رہے
صدیوں سے انتظار سحر کر رہے ہیں ہم

رئیس امروہوی