EN हिंदी
انتر شیاری | شیح شیری

انتر

93 شیر

آہٹیں سن رہا ہوں یادوں کی
آج بھی اپنے انتظار میں گم

رسا چغتائی




تیرے آنے کا انتظار رہا
عمر بھر موسم بہار رہا

رسا چغتائی




ایسی ہی انتظار میں لذت اگر نہ ہو
تو دو گھڑی فراق میں اپنی بسر نہ ہو

ریاضؔ خیرآبادی




میں سوچتا ہوں مجھے انتظار کس کا ہے
کواڑ رات کو گھر کا اگر کھلا رہ جائے

صابر ظفر




نہ انتظار کرو ان کا اے عزا دارو
شہید جاتے ہیں جنت کو گھر نہیں آتے

صابر ظفر




مری نعش کے سرہانے وہ کھڑے یہ کہہ رہے ہیں
اسے نیند یوں نہ آتی اگر انتظار ہوتا

صفی لکھنوی




یہ بھی اک رات کٹ ہی جائے گی
صبح فردا کی منتظر ہے نگاہ

سالک لکھنوی