جستجو کھوئے ہوؤں کی عمر بھر کرتے رہے
چاند کے ہم راہ ہم ہر شب سفر کرتے رہے
راستوں کا علم تھا ہم کو نہ سمتوں کی خبر
شہر نامعلوم کی چاہت مگر کرتے رہے
ہم نے خود سے بھی چھپایا اور سارے شہر کو
تیرے جانے کی خبر دیوار و در کرتے رہے
وہ نہ آئے گا ہمیں معلوم تھا اس شام بھی
انتظار اس کا مگر کچھ سوچ کر کرتے رہے
آج آیا ہے ہمیں بھی ان اڑانوں کا خیال
جن کو تیرے زعم میں بے بال و پر کرتے رہے
غزل
جستجو کھوئے ہوؤں کی عمر بھر کرتے رہے
پروین شاکر