خاموش زندگی جو بسر کر رہے ہیں ہم
گہرے سمندروں میں سفر کر رہے ہیں ہم
صدیوں تک اہتمام شب ہجر میں رہے
صدیوں سے انتظار سحر کر رہے ہیں ہم
ذرے کے زخم دل پہ توجہ کئے بغیر
درمان درد شمس و قمر کر رہے ہیں ہم
ہر چند ناز حسن پہ غالب نہ آ سکے
کچھ اور معرکے ہیں جو سر کر رہے ہیں ہم
صبح ازل سے شام ابد تک ہے ایک دن
یہ دن تڑپ تڑپ کے بسر کر رہے ہیں ہم
کوئی پکارتا ہے ہر اک حادثے کے ساتھ
تخلیق کائنات دگر کر رہے ہیں ہم
اے عرصۂ طلب کے سبک سیر قافلو
ٹھہرو کہ نظم راہ گزر کر رہے ہیں ہم
لکھ لکھ کے اشک و خوں سے حکایات زندگی
آرائش کتاب بشر کر رہے ہیں ہم
تخمینۂ حوادث طوفاں کے ساتھ ساتھ
بطن صدف میں وزن گہر کر رہے ہیں ہم
ہم اپنی زندگی تو بسر کر چکے رئیسؔ
یہ کس کی زیست ہے جو بسر کر رہے ہیں ہم
غزل
خاموش زندگی جو بسر کر رہے ہیں ہم
رئیس امروہوی