مسافروں کا کبھی اعتبار مت کرنا
جہاں کہا تھا وہاں انتظار مت کرنا
میں نیند ہوں مری حد ہے تمہاری پلکوں تک
بدن جلا کے مرا انتظار مت کرنا
میں بچ گیا ہوں مگر سارے خواب ڈوب گئے
مری طرح بھی سمندر کو پار مت کرنا
بہا لو اپنے شہیدوں کی قبر پر آنسو
مگر یہ حکم ہے کتبے شمار مت کرنا
ہوا عزیز ہے لیکن یہ اس کی ضد کیا ہے
تم اپنے گھر کے چراغوں کو پیار مت کرنا
یہ وقت بند دریچوں پہ لکھ گیا قیصرؔ
میں جا رہا ہوں مرا انتظار مت کرنا
غزل
مسافروں کا کبھی اعتبار مت کرنا
قیصر الجعفری