EN हिंदी
دل شیاری | شیح شیری

دل

292 شیر

الفت میں برابر ہے وفا ہو کہ جفا ہو
ہر بات میں لذت ہے اگر دل میں مزا ہو

امیر مینائی




دل لگی میں حسرت دل کچھ نکل جاتی تو ہے
بوسے لے لیتے ہیں ہم دو چار ہنستے بولتے

امیر اللہ تسلیم




دل پر چوٹ پڑی ہے تب تو آہ لبوں تک آئی ہے
یوں ہی چھن سے بول اٹھنا تو شیشہ کا دستور نہیں

عندلیب شادانی




دل نہ کعبہ ہے نے کلیسا ہے
تیرا گھر ہے حریم مریم ہے

انجم اعظمی




دل سے اٹھتا ہے صبح و شام دھواں
کوئی رہتا ہے اس مکاں میں ابھی

انجم رومانی




دل جو ٹوٹے گا تو اک طرفہ چراغاں ہوگا
کتنے آئینوں میں وہ شکل دکھائی دے گی

انور مسعود




دل سلگتا ہے ترے سرد رویے سے مرا
دیکھ اب برف نے کیا آگ لگا رکھی ہے

انور مسعود