EN हिंदी
ہے جو تاثیر سی فغاں میں ابھی | شیح شیری
hai jo tasir si fughan mein abhi

غزل

ہے جو تاثیر سی فغاں میں ابھی

انجم رومانی

;

ہے جو تاثیر سی فغاں میں ابھی
لوگ باقی ہیں کچھ جہاں میں ابھی

دل سے اٹھتا ہے صبح و شام دھواں
کوئی رہتا ہے اس مکاں میں ابھی

ساتھ ہے ایک عمر کا لیکن
کشمکش سی ہے جسم و جاں میں ابھی

مر نہ رہیے تو اور کیا کیجے
جان ہے جسم ناتواں میں ابھی

اور کچھ دن خراب ہو لیجے
سود اپنا ہے اس زیاں میں ابھی

وہ مناظر مری نگاہ میں ہیں
جو نہیں وہم میں گماں میں ابھی

نہیں فارغ زمین سے انجمؔ
کام باقی ہے آسماں میں ابھی