ایک سودا ہے لذت غم ہے
آج پھر میری آنکھ پر نم ہے
دل کو بہلا رہے ہیں مدت سے
زندگی کیا عذاب سے کم ہے
ذرہ ذرہ اداس ہے اس کا
میرے گھر کا عجیب عالم ہے
مہر و مہ پر کمند پڑتی ہے
سوچ میں کوئی ابن آدم ہے
تجھ سے پردہ نہیں مرے غم کا
تو مری زندگی کا محرم ہے
یہ جو اک اعتبار ہے تم پر
کس قدر پائیدار و محکم ہے
کل تو دنیا بدل ہی جائے گی
آج ان کا یہ جور پیہم ہے
دل نہ کعبہ ہے نے کلیسا ہے
تیرا گھر ہے حریم مریم ہے
غزل
ایک سودا ہے لذت غم ہے
انجم اعظمی