گر یہی ہے عادت تکرار ہنستے بولتے
منہ کی اک دن کھائیں گے اغیار ہنستے بولتے
تھی تمنا باغ عالم میں گل و بلبل کی طرح
بیٹھ کر ہم تم کہیں اے یار ہنستے بولتے
میری قسمت سے زبان تیر بھی گویا نہیں
ورنہ کیا کیا زخم دامن دار ہنستے بولتے
دل لگی میں حسرت دل کچھ نکل جاتی تو ہے
بوسے لے لیتے ہیں ہم دو چار ہنستے بولتے
آج عذر اتقا تسلیمؔ کل تک یار سے
آپ کو دیکھا سر بازار ہنستے بولتے
غزل
گر یہی ہے عادت تکرار ہنستے بولتے
امیر اللہ تسلیم