اب کہاں اور کسی چیز کی جا رکھی ہے
دل میں اک تیری تمنا جو بسا رکھی ہے
سر بکف میں بھی ہوں شمشیر بکف ہے تو بھی
تو نے کس دن پہ یہ تقریب اٹھا رکھی ہے
دل سلگتا ہے ترے سرد رویے سے مرا
دیکھ اب برف نے کیا آگ لگا رکھی ہے
آئنہ دیکھ ذرا کیا میں غلط کہتا ہوں
تو نے خود سے بھی کوئی بات چھپا رکھی ہے
جیسے تو حکم کرے دل مرا ویسے دھڑکے
یہ گھڑی تیرے اشاروں سے ملا رکھی ہے
مطمئن مجھ سے نہیں ہے جو رعیت میری
یہ مرا تاج رکھا ہے یہ قبا رکھی ہے
گوہر اشک سے خالی نہیں آنکھیں انورؔ
یہی پونجی تو زمانے سے بچا رکھی ہے
غزل
اب کہاں اور کسی چیز کی جا رکھی ہے
انور مسعود