EN हिंदी
دل شیاری | شیح شیری

دل

292 شیر

دل ٹھکانے ہو تو سب کچھ ہے عزیز
جی بہل جاتا ہے صحرا کیوں نہ ہو

عزیز حیدرآبادی




آئینہ چھوڑ کے دیکھا کئے صورت میری
دل مضطر نے مرے ان کو سنورنے نہ دیا

عزیز لکھنوی




لطف بہار کچھ نہیں گو ہے وہی بہار
دل ہی اجڑ گیا کہ زمانہ اجڑ گیا

عزیز لکھنوی




وہی حکایت دل تھی وہی شکایت دل
تھی ایک بات جہاں سے بھی ابتدا کرتے

عزیز لکھنوی




دل میں اب کچھ بھی نہیں ان کی محبت کے سوا
سب فسانے ہیں حقیقت میں حقیقت کے سوا

عزیز وارثی




بے خودی میں لے لیا بوسہ خطا کیجے معاف
یہ دل بیتاب کی ساری خطا تھی میں نہ تھا

بہادر شاہ ظفر




دیکھ دل کو مرے او کافر بے پیر نہ توڑ
گھر ہے اللہ کا یہ اس کی تو تعمیر نہ توڑ

بہادر شاہ ظفر