EN हिंदी
دل شیاری | شیح شیری

دل

292 شیر

دل میں لیتا ہے چٹکیاں کوئی
ہائے اس درد کی دوا کیا ہے

اختر شیرانی




عشق کو نغمۂ امید سنا دے آ کر
دل کی سوئی ہوئی قسمت کو جگا دے آ کر

اختر شیرانی




رات بھر ان کا تصور دل کو تڑپاتا رہا
ایک نقشہ سامنے آتا رہا جاتا رہا

اختر شیرانی




نفرت بھی اسی سے ہے پرستش بھی اسی کی
اس دل سا کوئی ہم نے تو کافر نہیں دیکھا

عالم تاب تشنہ




دور تک دل میں دکھائی نہیں دیتا کوئی
ایسے ویرانے میں اب کس کو صدا دی جائے

علی احمد جلیلی




کام اب کوئی نہ آئے گا بس اک دل کے سوا
راستے بند ہیں سب کوچۂ قاتل کے سوا

علی سردار جعفری




دنیا کی محفلوں سے اکتا گیا ہوں یا رب
کیا لطف انجمن کا جب دل ہی بجھ گیا ہو

علامہ اقبال