EN हिंदी
دل شیاری | شیح شیری

دل

292 شیر

خیر سے دل کو تری یاد سے کچھ کام تو ہے
وصل کی شب نہ سہی ہجر کا ہنگام تو ہے

حسن نعیم




سرائے دل میں جگہ دے تو کاٹ لوں اک رات
نہیں ہے شرط کہ مجھ کو شریک خواب بنا

حسن نعیم




آرزو تیری برقرار رہے
دل کا کیا ہے رہا رہا نہ رہا

حسرتؔ موہانی




اب دلوں میں کوئی گنجائش نہیں ملتی حیاتؔ
بس کتابوں میں لکھا حرف وفا رہ جائے گا

حیات لکھنوی




کیا رشک ہے کہ ایک کا ہے ایک مدعی
تم دل میں ہو تو درد ہمارے جگر میں ہے

ہجرؔ ناظم علی خان




دشت وفا میں جل کے نہ رہ جائیں اپنے دل
وہ دھوپ ہے کہ رنگ ہیں کالے پڑے ہوئے

ہوش ترمذی




دل کو غم راس ہے یوں گل کو صبا ہو جیسے
اب تو یہ درد کی صورت ہی دوا ہو جیسے

ہوش ترمذی