خیر سے دل کو تری یاد سے کچھ کام تو ہے
وصل کی شب نہ سہی ہجر کا ہنگام تو ہے
حسن نعیم
سرائے دل میں جگہ دے تو کاٹ لوں اک رات
نہیں ہے شرط کہ مجھ کو شریک خواب بنا
حسن نعیم
آرزو تیری برقرار رہے
دل کا کیا ہے رہا رہا نہ رہا
حسرتؔ موہانی
اب دلوں میں کوئی گنجائش نہیں ملتی حیاتؔ
بس کتابوں میں لکھا حرف وفا رہ جائے گا
حیات لکھنوی
کیا رشک ہے کہ ایک کا ہے ایک مدعی
تم دل میں ہو تو درد ہمارے جگر میں ہے
ہجرؔ ناظم علی خان
دشت وفا میں جل کے نہ رہ جائیں اپنے دل
وہ دھوپ ہے کہ رنگ ہیں کالے پڑے ہوئے
ہوش ترمذی
دل کو غم راس ہے یوں گل کو صبا ہو جیسے
اب تو یہ درد کی صورت ہی دوا ہو جیسے
ہوش ترمذی