سلسلہ خوابوں کا سب یونہی دھرا رہ جائے گا
ایک دن بستر پہ کوئی جاگتا رہ جائے گا
ایک خواہش دل کو غیر آباد کرتی جائے گی
اک پرندہ دور تک اڑتا ہوا رہ جائے گا
چار سو پھیلی ہوئی بے چہرگی کی دھند میں
ایک دن بے عکس ہو کر آئنا رہ جائے گا
ہر صدا سے بچ کے وہ احساس تنہائی میں ہے
اپنے ہی دیوار و در میں گونجتا رہ جائے گا
مدعا ہم اپنا کاغذ پر رقم کر جائیں گے
وقت کے ہاتھوں میں اپنا فیصلا رہ جائے گا
دو گھڑی کے واسطے آ کر چلے جاؤگے گےتم
پھر مری تنہائیوں کا سلسلا رہ جائے گا
اب دلوں میں کوئی گنجائش نہیں ملتی حیاتؔ
بس کتابوں میں لکھا حرف وفا رہ جائے گا
غزل
سلسلہ خوابوں کا سب یونہی دھرا رہ جائے گا
حیات لکھنوی