EN हिंदी
سلسلہ خوابوں کا سب یونہی دھرا رہ جائے گا | شیح شیری
silsila KHwabon ka sab yunhi dhara rah jaega

غزل

سلسلہ خوابوں کا سب یونہی دھرا رہ جائے گا

حیات لکھنوی

;

سلسلہ خوابوں کا سب یونہی دھرا رہ جائے گا
ایک دن بستر پہ کوئی جاگتا رہ جائے گا

ایک خواہش دل کو غیر آباد کرتی جائے گی
اک پرندہ دور تک اڑتا ہوا رہ جائے گا

چار سو پھیلی ہوئی بے چہرگی کی دھند میں
ایک دن بے عکس ہو کر آئنا رہ جائے گا

ہر صدا سے بچ کے وہ احساس تنہائی میں ہے
اپنے ہی دیوار و در میں گونجتا رہ جائے گا

مدعا ہم اپنا کاغذ پر رقم کر جائیں گے
وقت کے ہاتھوں میں اپنا فیصلا رہ جائے گا

دو گھڑی کے واسطے آ کر چلے جاؤگے گےتم
پھر مری تنہائیوں کا سلسلا رہ جائے گا

اب دلوں میں کوئی گنجائش نہیں ملتی حیاتؔ
بس کتابوں میں لکھا حرف وفا رہ جائے گا