EN हिंदी
بیان شوق بنا حرف اضطراب بنا | شیح شیری
bayan-e-shauq bana harf-e-iztirab bana

غزل

بیان شوق بنا حرف اضطراب بنا

حسن نعیم

;

بیان شوق بنا حرف اضطراب بنا
وہ اک سوال کہ جس کا نہ کچھ جواب بنا

میں ایک باب تھا افسانۂ وفا کا مگر
تمہاری بزم سے اٹھا تو اک کتاب بنا

مجھے سفیر بنا اپنا کو بہ کو اے عشق
کسے ہوس ہے کہ دنیا میں کامیاب بنا

میں جس خیال کو اپنا جنوں سمجھتا تھا
وہی خیال زمانے کا حسن خواب بنا

کبھی تو وجہ کرم بن گئی ہے خودداری
کبھی نیاز طلب باعث عتاب بنا

سرائے دل میں جگہ دے تو کاٹ لوں اک رات
نہیں یہ شرط کہ مجھ کو شریک خواب بنا

جو ایک داغ کی صورت رہا شب امید
نجوم دل میں وہی درد آفتاب بنا

مجھے نہ خاک میں ملنے دے اے غم پنہاں
جو بن سکوں تو مجھے نقش لا جواب بنا

مژہ سے قطرہ خوشی میں چھلک رہا تھا مگر
سکوت لب سے ترے موج اضطراب بنا

بنے ہیں خواب کے جھونکے نسیم خلد نشیں
سلوک دہر جہاں آتش عذاب بنا

بہت قریب سے دیکھا تو کھو گئے جلوے
نظر ہی پردہ بنی حسن ہی حجاب بنا

جو میرے دشت جنوں میں تھا فرق روئے بہار
وہی خرد کے خرابے میں اک گلاب بنا

امیر چرخ کا احساں نہیں ہے مجھ پہ نعیمؔ
مجھے ہے ناز کہ ذرہ سے آفتاب بنا