EN हिंदी
دل شیاری | شیح شیری

دل

292 شیر

کسی نے مول نہ پوچھا دل شکستہ کا
کوئی خرید کے ٹوٹا پیالہ کیا کرتا

حیدر علی آتش




کوئے جاناں میں بھی اب اس کا پتہ ملتا نہیں
دل مرا گھبرا کے کیا جانے کدھر جاتا رہا

حیدر علی آتش




اس بلائے جاں سے آتشؔ دیکھیے کیوں کر بنے
دل سوا شیشے سے نازک دل سے نازک خوئے دوست

حیدر علی آتش




یہ دل لگانے میں میں نے مزا اٹھایا ہے
ملا نہ دوست تو دشمن سے اتحاد کیا

حیدر علی آتش




دل کو تو بہت پہلے سے دھڑکا سا لگا تھا
پانا ترا شاید تجھے کھونے کے لیے ہے

حیدر قریشی




چرچا ہمارا عشق نے کیوں جا بہ جا کیا
دل اس کو دے دیا تو بھلا کیا برا کیا

حکیم محمد اجمل خاں شیدا




دل کو جاناں سے حسنؔ سمجھا بجھا کے لائے تھے
دل ہمیں سمجھا بجھا کر سوئے جاناں لے چلا

حسن بریلوی