گو داغ ہو گئے ہیں وہ چھالے پڑے ہوئے
ہیں اب بھی دل میں تیرے حوالے پڑے ہوئے
دشت وفا میں جل کے نہ رہ جائیں اپنے دل
وہ دھوپ ہے کہ رنگ ہیں کالے پڑے ہوئے
شعلہ سا رنگ کیا ہے وہ حسن کرشمہ ساز
ہیں کشمکش میں دیکھنے والے پڑے ہوئے
شبنم سزا ہے جرأت افشائے راز کی
گویا زبان گل میں ہیں چھالے پڑے ہوئے
دیکھو ہمیں کہ منزل ہوش و طلب میں ہیں
لیکن لب سوال پہ تالے پڑے ہوئے
بے حس گزر نہ یوں چمن روزگار سے
کانٹے یا پھول کچھ تو اٹھا لے پڑے ہوئے
جائیں گے شکل نو سے سر بزم یار ہوشؔ
منہ پر بھبوت کان میں بالے پڑے ہوئے
غزل
گو داغ ہو گئے ہیں وہ چھالے پڑے ہوئے
ہوش ترمذی