EN हिंदी
تم بھی نگاہ میں ہو عدو بھی نظر میں ہے | شیح شیری
tum bhi nigah mein ho adu bhi nazar mein hai

غزل

تم بھی نگاہ میں ہو عدو بھی نظر میں ہے

ہجرؔ ناظم علی خان

;

تم بھی نگاہ میں ہو عدو بھی نظر میں ہے
دنیا ہمارے دیدۂ حسرت نگر میں ہے

ہاں جانتے ہیں جان کا خواہاں تمہیں کو ہم
معلوم ہے کہ تیغ تمہاری کمر میں ہے

کیا رشک ہے کہ ایک کا ہے ایک مدعی
تم دل میں ہو تو درد ہمارے جگر میں ہے

گو غیر کی بغل میں سہی وہ پری جمال
میں تو یہی کہوں گا کہ میری نظر میں ہے

دونوں نے درد عشق کو تقسیم کر لیا
تھوڑا سا دل میں ہے تو ذرا سا جگر میں ہے

میں بھی ہوں آج میں کہ بر آئی مراد دل
دل بھی ہے آج دل کہ وہ مہمان گھر میں ہے

ممنون ہوں خیال کا اپنے شب فراق
جو سامنے نظر کے نہیں وہ نظر میں ہے

دلبر ہو ایک تم کہ ہماری نظر میں ہو
دل ہے ہمارا دل کہ تمہاری نظر میں ہے

کہتے ہیں جس کو دل مرے پہلو میں اب کہاں
ہے بھی تو پائمال کسی رہ گزر میں ہے

دیکھو تو دیکھتے ہیں تمہیں کس نگاہ سے
حسرت ہے جس کا نام ہماری نظر میں ہے

جس پر پڑی پسیج گیا موم ہو گیا
ڈوبی ہوئی نگاہ ہماری اثر میں ہے

جچتا نہیں نگاہ میں کوئی حسیں بھی ہجرؔ
جب سے کسی کی چاند سی صورت نظر میں ہے