EN हिंदी
دل کو غم راس ہے یوں گل کو صبا ہو جیسے | شیح شیری
dil ko gham ras hai yun gul ko saba ho jaise

غزل

دل کو غم راس ہے یوں گل کو صبا ہو جیسے

ہوش ترمذی

;

دل کو غم راس ہے یوں گل کو صبا ہو جیسے
اب تو یہ درد کی صورت ہی دوا ہو جیسے

ہر نفس حلقۂ زنجیر نظر آتا ہے
زندگی جرم تمنا کی سزا ہو جیسے

کان بجتے ہیں سکوت شب تنہائی میں
وہ خموشی ہے کہ اک حشر بپا ہو جیسے

اب تو دیوانوں سے یوں بچ کے گزر جاتی ہے
بوئے گل بھی ترے دامن کی ہوا ہو جیسے

کہتے کہتے غم دل عمر گزاری لیکن
پھر بھی احساس یہ ہے کچھ نہ کہا ہو جیسے

ہوشؔ بیتابئ احساس کا عالم توبہ
مجھ میں چھپ کر وہ مجھے دیکھ رہا ہو جیسے