دل کو غم راس ہے یوں گل کو صبا ہو جیسے
اب تو یہ درد کی صورت ہی دوا ہو جیسے
ہر نفس حلقۂ زنجیر نظر آتا ہے
زندگی جرم تمنا کی سزا ہو جیسے
کان بجتے ہیں سکوت شب تنہائی میں
وہ خموشی ہے کہ اک حشر بپا ہو جیسے
اب تو دیوانوں سے یوں بچ کے گزر جاتی ہے
بوئے گل بھی ترے دامن کی ہوا ہو جیسے
کہتے کہتے غم دل عمر گزاری لیکن
پھر بھی احساس یہ ہے کچھ نہ کہا ہو جیسے
ہوشؔ بیتابئ احساس کا عالم توبہ
مجھ میں چھپ کر وہ مجھے دیکھ رہا ہو جیسے
غزل
دل کو غم راس ہے یوں گل کو صبا ہو جیسے
ہوش ترمذی