غم دل اب کسی کے بس کا نہیں
کیا دوا کیا دعا کرے کوئی
ہادی مچھلی شہری
دل سے آتی ہے بات لب پہ حفیظؔ
بات دل میں کہاں سے آتی ہے
حفیظ ہوشیارپوری
دل کو خدا کی یاد تلے بھی دبا چکا
کم بخت پھر بھی چین نہ پائے تو کیا کروں
حفیظ جالندھری
دل لگاؤ تو لگاؤ دل سے دل
دل لگی ہی دل لگی اچھی نہیں
حفیظ جالندھری
ہاتھ رکھ رکھ کے وہ سینے پہ کسی کا کہنا
دل سے درد اٹھتا ہے پہلے کہ جگر سے پہلے
حفیظ جالندھری
کوئی دوا نہ دے سکے مشورۂ دعا دیا
چارہ گروں نے اور بھی درد دل کا بڑھا دیا
حفیظ جالندھری
او دل توڑ کے جانے والے دل کی بات بتاتا جا
اب میں دل کو کیا سمجھاؤں مجھ کو بھی سمجھاتا جا
حفیظ جالندھری
ٹیگز:
| دل |
| 2 لائنیں شیری |