EN हिंदी
احسان شیاری | شیح شیری

احسان

75 شیر

اس کی آنکھیں ہیں کہ اک ڈوبنے والا انساں
دوسرے ڈوبنے والے کو پکارے جیسے

عرفانؔ صدیقی




آنکھیں جو اٹھائے تو محبت کا گماں ہو
نظروں کو جھکائے تو شکایت سی لگے ہے

جاں نثاراختر




لوگ کہتے ہیں کہ تو اب بھی خفا ہے مجھ سے
تیری آنکھوں نے تو کچھ اور کہا ہے مجھ سے

جاں نثاراختر




ہم محبت کا سبق بھول گئے
تیری آنکھوں نے پڑھایا کیا ہے

جمیلؔ مظہری




حسیں تیری آنکھیں حسیں تیرے آنسو
یہیں ڈوب جانے کو جی چاہتا ہے

جگر مراد آبادی




کبھی ان مد بھری آنکھوں سے پیا تھا اک جام
آج تک ہوش نہیں ہوش نہیں ہوش نہیں

جگر مراد آبادی




تیری آنکھوں کا کچھ قصور نہیں
ہاں مجھی کو خراب ہونا تھا

جگر مراد آبادی