EN हिंदी
لوگ کہتے ہیں کہ تو اب بھی خفا ہے مجھ سے | شیح شیری
log kahte hain ki tu ab bhi KHafa hai mujhse

غزل

لوگ کہتے ہیں کہ تو اب بھی خفا ہے مجھ سے

جاں نثاراختر

;

لوگ کہتے ہیں کہ تو اب بھی خفا ہے مجھ سے
تیری آنکھوں نے تو کچھ اور کہا ہے مجھ سے

ہائے اس وقت کو کوسوں کہ دعا دوں یارو
جس نے ہر درد مرا چھین لیا ہے مجھ سے

دل کا یہ حال کہ دھڑکے ہی چلا جاتا ہے
ایسا لگتا ہے کوئی جرم ہوا ہے مجھ سے

کھو گیا آج کہاں رزق کا دینے والا
کوئی روٹی جو کھڑا مانگ رہا ہے مجھ سے

اب مرے قتل کی تدبیر تو کرنی ہوگی
کون سا راز ہے تیرا جو چھپا ہے مجھ سے