لوگ کہتے ہیں کہ تو اب بھی خفا ہے مجھ سے
تیری آنکھوں نے تو کچھ اور کہا ہے مجھ سے
ہائے اس وقت کو کوسوں کہ دعا دوں یارو
جس نے ہر درد مرا چھین لیا ہے مجھ سے
دل کا یہ حال کہ دھڑکے ہی چلا جاتا ہے
ایسا لگتا ہے کوئی جرم ہوا ہے مجھ سے
کھو گیا آج کہاں رزق کا دینے والا
کوئی روٹی جو کھڑا مانگ رہا ہے مجھ سے
اب مرے قتل کی تدبیر تو کرنی ہوگی
کون سا راز ہے تیرا جو چھپا ہے مجھ سے
غزل
لوگ کہتے ہیں کہ تو اب بھی خفا ہے مجھ سے
جاں نثاراختر