EN हिंदी
احسان شیاری | شیح شیری

احسان

75 شیر

ان جھیل سی گہری آنکھوں میں
اک لہر سی ہر دم رہتی ہے

رسا چغتائی




لوگ کرتے ہیں خواب کی باتیں
ہم نے دیکھا ہے خواب آنکھوں سے

صابر دت




میں نے چاہا تھا کہ اشکوں کا تماشا دیکھوں
اور آنکھوں کا خزانہ تھا کہ خالی نکلا

ساقی فاروقی




کیفیت چشم اس کی مجھے یاد ہے سوداؔ
ساغر کو مرے ہاتھ سے لیجو کہ چلا میں

محمد رفیع سودا




آنکھ کی یہ ایک حسرت تھی کہ بس پوری ہوئی
آنسوؤں میں بھیگ جانے کی ہوس پوری ہوئی

شہریار




اب اپنے چہرے پر دو پتھر سے سجائے پھرتا ہوں
آنسو لے کر بیچ دیا ہے آنکھوں کی بینائی کو

شہزاد احمد




تمہاری آنکھ میں کیفیت خمار تو ہے
شراب کا نہ سہی نیند کا اثر ہی سہی

شہزاد احمد