EN हिंदी
شمع تنہا کی طرح صبح کے تارے جیسے | شیح شیری
sham-e-tanha ki tarah subh ke tare jaise

غزل

شمع تنہا کی طرح صبح کے تارے جیسے

عرفانؔ صدیقی

;

شمع تنہا کی طرح صبح کے تارے جیسے
شہر میں ایک ہی دو ہوں گے ہمارے جیسے

چھو گیا تھا کبھی اس جسم کو اک شعلۂ درد
آج تک خاک سے اڑتے ہیں شرارے جیسے

حوصلے دیتا ہے یہ ابر گریزاں کیا کیا
زندہ ہوں دشت میں ہم اس کے سہارے جیسے

سخت جاں ہم سا کوئی تم نے نہ دیکھا ہوگا
ہم نے قاتل کئی دیکھے ہیں تمہارے جیسے

دیدنی ہے مجھے سینے سے لگانا اس کا
اپنے شانوں سے کوئی بوجھ اتارے جیسے

اب جو چمکا ہے یہ خنجر تو خیال آتا ہے
تجھ کو دیکھا ہو کبھی نہر کنارے جیسے

اس کی آنکھیں ہیں کہ اک ڈوبنے والا انساں
دوسرے ڈوبنے والے کو پکارے جیسے