EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

یہ عکس آب ہے یا اس کا دامن رنگیں
عجیب طرح کی سرخی سی بادبان میں ہے

اکبر حمیدی




آنکھ میں آنسو کا اور دل میں لہو کا کال ہے
ہے تمنا کا وہی جو زندگی کا حال ہے

اکبر حیدرآبادی




آنکھوں کو دیکھنے کا سلیقہ جب آ گیا
کتنے نقاب چہرۂ اسرار سے اٹھے

اکبر حیدرآبادی




بے سال و سن زمانوں میں پھیلے ہوئے ہیں ہم
بے رنگ و نسل نام میں تو بھی ہے میں بھی ہوں

اکبر حیدرآبادی




برے بھلے میں فرق ہے یہ جانتے ہیں سب مگر
ہے کون نیک کون بد نظر نظر کی بات ہے

اکبر حیدرآبادی




چراغ راہ گزر لاکھ تابناک سہی
جلا کے اپنا دیا روشنی مکان میں لا

اکبر حیدرآبادی




چھوڑ کے مال و دولت ساری دنیا میں اپنی
خالی ہاتھ گزر جاتے ہیں کیسے کیسے لوگ

اکبر حیدرآبادی