تمام عالم امکاں مرے گمان میں ہے
وہ تیر ہوں جو ابھی وقت کی کمان میں ہے
ابھی وہ صبح نہیں ہے کہ میرا کشف کھلے
وہ حرف شام ہوں جو اجنبی زبان میں ہے
ان آنگنوں میں ہیں برسوں سے ایک سے دن رات
یہی رکا ہوا لمحہ ہر اک مکان میں ہے
یہ عکس آب ہے یا اس کا دامن رنگیں
عجیب طرح کی سرخی سی بادبان میں ہے
جہاں دلیل کو پتھر سے توڑنا ٹھہرے
وہ شہر سنگ دلاں سخت امتحان میں ہے
مجھے عدو کی بقا بھی عزیز ہے اکبرؔ
کہ ایک پھول سی دیوار درمیان میں ہے
غزل
تمام عالم امکاں مرے گمان میں ہے
اکبر حمیدی