زندان صبح و شام میں تو بھی ہے میں بھی ہوں
اک گردش مدام میں تو بھی ہے میں بھی ہوں
بے فرش و بام سلسلۂ کائنات کے
اس بے ستوں نظام میں تو بھی ہے میں بھی ہوں
بے سال و سن زمانوں میں پھیلے ہوئے ہیں ہم
بے رنگ و نسل نام میں تو بھی ہے میں بھی ہوں
اس دائمی حصار میں ہم کو مفر کہاں
ذروں کے ازدحام میں تو بھی ہے میں بھی ہوں
ہر تیرہ فام صبح کا ورثہ ہے مشترک
ہر نور دیدہ شام میں تو بھی ہے میں بھی ہوں
غزل
زندان صبح و شام میں تو بھی ہے میں بھی ہوں
اکبر حیدرآبادی