EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

دل دبا جاتا ہے کتنا آج غم کے بار سے
کیسی تنہائی ٹپکتی ہے در و دیوار سے

اکبر حیدرآبادی




ہر دکاں اپنی جگہ حیرت نظارہ ہے
فکر انساں کے سجائے ہوئے بازار تو دیکھ

اکبر حیدرآبادی




ہمت والے پل میں بدل دیتے ہیں دنیا کو
سوچنے والا دل تو بیٹھا سوچا کرتا ہے

اکبر حیدرآبادی




خود پرستی خدا نہ بن جائے
احتیاطاً گناہ کرتا ہوں

اکبر حیدرآبادی




لبوں پر تبسم تو آنکھوں میں آنسو تھی دھوپ ایک پل میں تو اک پل میں بارش
ہمیں یاد ہے باتوں باتوں میں ان کا ہنسانا رلانا رلانا ہنسانا

اکبر حیدرآبادی




مری شکست بھی تھی میری ذات سے منسوب
کہ میری فکر کا ہر فیصلہ شعوری تھا

اکبر حیدرآبادی




مبہم تھے سب نقوش نقابوں کی دھند میں
چہرہ اک اور بھی پس چہرہ ضرور تھا

اکبر حیدرآبادی