مسافرت کا ولولہ سیاحتوں کا مشغلہ
جو تم میں کچھ زیادہ ہے سفر کرو سفر کرو
اکبر حیدرآبادی
مشکل ہی سے کر لیتی ہے دنیا اسے قبول
ایسی حقیقت جس میں فسانہ کم کم ہوتا ہے
اکبر حیدرآبادی
نہ جانے کتنی بستیاں اجڑ کے رہ گئیں
ملے ہیں راستے میں کچھ مکاں جلے جلے
اکبر حیدرآبادی
پہنچ کے جو سر منزل بچھڑ گیا مجھ سے
وہ ہم سفر تھا مگر ہم نظر نہ تھا میرا
اکبر حیدرآبادی
رستے ہی میں ہو جاتی ہیں باتیں بس دو چار
اب تو ان کے گھر بھی جانا کم کم ہوتا ہے
اکبر حیدرآبادی
رت بدلی تو زمیں کے چہرے کا غازہ بھی بدلا
رنگ مگر خود آسمان نے بدلے کیسے کیسے
اکبر حیدرآبادی
وہ پاس ہو کے دور ہے تو دور ہو کے پاس
فراق اور وصال ہیں عجیب عجیب سے
اکبر حیدرآبادی